Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائشی دوست - حصہ اول

ماہنامہ عبقری - جولائی 2015ء

بغیر دلیل کے سب مانتا چلا گیا: حتیٰ کہ سمندر میں سونا گرنے لگا۔ میں اپنے دل پر پتھر رکھ کر بیٹھا رہا کہ میرے سامنے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاانکار تھا نہ موتی لیا‘ نہ چابی لی اور نہ یہ سونے کی پتیاں لیں کیونکہ مجھے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی میں ایک نصیحت کی تھی کہ استاد اور مرشد کی ہاں کو ایسا سمجھنا کہ اس کیلئے دلیل نہ دینی پڑے اور نہ کو نہ ایسے سمجھنا کہ اس کیلئے دلیل نہ دینی پڑے اور ان کی’ ہاں‘ اور’ نہ‘ کو بغیر دلیل ماننا۔ بس! وہ چیز میرے سامنے آتی تھی بس بغیر دلیل میں مانتا چلا جارہا تھا۔مرشد اور استاد کے حکم کی عظمت:میں نے محسوس کیا ایک اور ہوا آئی‘ بادل چھٹ گئے اور وہ پھول کی پتیوں کو اڑا اڑا کر سمندر میں بکھیر رہی تھیں۔ میں حیرت سے پھول کی لاکھوں‘ کروڑوں پتیوں کو سمندر میں تیرتا دیکھ رہا تھا جب کہ وہ سونے کی تھیں اور ہر پھول کی پتی پر ایک لفظ لکھا ہوا تھا ’’ولی‘‘ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی‘ سفر چلتا رہا۔ سامنے میں نے محسوس کیا کوئی کنارہ آگیا میں اس کنارے کا انتظار کرنے لگا لیکن مجھے ایک احساس بھی ہوا کہ میرا جی چاہتا اس بوڑھے ملاح کے ساتھ میں اپنے سفر کو رواں دواں رکھوں۔ مجھے جہاں دل میں موتی‘ چابی اور پھول کی پتیاں چھننے کا ہلکا سا احساس بھی تھا لیکن دوسری طرف مرشد اوراستاد کے حکم کی عظمت بھی تھی۔ بس یہ سوچیں تھیں کہ میں کنارے پرپہنچا ۔ملاح بابا اترا میں بھی ساتھ اترا۔ آگے گئے تو دو پتھر پڑے تھے ایک پر خود بیٹھے اوردوسرے پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔تین چیزیں نہ لینے کی حکمت:میں بیٹھ گیا مجھ سے فرمانے لگے پہلی چیز موتی تھی اگر تو لے لیتا تو مالا مال ہوجاتا لیکن یہ مال صرف تجھ تک رہتا‘ تیرے مرنے کے بعد تیری نسلیں اس سے فائدہ نہ پاسکتیں اور تیری نسلیں فقر، تنگدستی، غربت اور فقیری میں مبتلا ہوجاتیں۔دوسری چیز چابی تھی یہ دراصل خزانوں کی اور سات بڑے بادشاہوں کے خزانوں کی چابی تھی جب تو چابی لیتا ان خزانوں پر مامور جنات جو کہ بہت بڑے بڑے دیو جنات ہیں وہ تیرے غلام بن جاتے اور تجھے خود ان خزانوں کے پاس لے جاتے اور تجھے ان خزانوں کا دروازہ کھول کر دیتے تو بھی خزانے لوٹتا تیرے مرنے کے تیری نسلیں بھی خزانے لوٹتیں۔ تیری تین نسلیں خزانوں سے فائدہ اٹھاتیں اس کے بعد چوتھی نسل اس سے محروم ہوجاتی۔اگلی بارش پھولوں کی پتیوں کی تھی‘ ان پھول کی پتیوں میں دولت مال اسباب چیزیں اور ہر پھول کی پتی کے اوپر لفظ ’’ولی‘‘ لکھا ہوا تھا اس ولی سے مراد بادشاہت تھی اور کسی علاقے کی ولایت گورنری اور حکومت تھی جب یہ پتیاں تیرے پاس آتیں بس غیبی نظام چلتا تو کسی علاقے کا بادشاہ بن جاتا‘ مال ودولت‘ تخت‘ تاج‘ فوجیں‘ حکومت‘ اقتدار یہ سب تیرا ہوتا اور تو ان چیزوں کو لے کرچلتا رہتا تیری زندگی تک سب کچھ۔ اس کے بعد ختم۔یہ سب تیرا امتحان تھا:یہ سب کچھ تیرا امتحان تھا۔ یہ سب کچھ تیری آزمائش تھی‘ دراصل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تجھے اپنےپیچھے بٹھا کر تیری سالہا سال خدمت کا صلہ دینا چاہا‘ دراصل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تجھے کچھ اور دینا چاہتےہیں ‘ایسا کچھ کہ تو آباد و شاد رہے تو دولت مند رہے اور تو کمال اور باکمال رہے۔ تیرے رزق، دولت، برکت، عزت اور خزانوں کی کمی نہ ہو اور صرف تیرا نہیں تیری نسلیں بھی ان خزانوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ آبادو شاد رہیں۔وہ خزانہ تجھے میں دیتا ہوں: وہ خزانہ تجھے میں دیتا ہوں اور وہ تیری امانت ہے‘ تیری خدمت کی وجہ سے پڑی ہوئی ہے۔ ملاح بابا مجھے جھنجھوڑ کر کہنے لگا دیکھ خیال کر کسی بھی اللہ والے کی خدمت اگر خلوص دل سے کی جائے تو اس خدمت کے صلے میں خدا ملتا ہے اور خدا سے مراد خدا کی ساری نعمتیں اور آخرت کی ساری نعمتیں آخرت کی ساری نعمتیں تجھے ضرور ملیں گی، آخرت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت میں دیتا ہوں وہ نعمت سورۂ قریش ہے ہر بار بسم اللہ کے ساتھ اس کو پڑھنا ہر لمحہ، ہر لحظہ، ہر سعاعت ،ہر گھڑی، ہر قدم، ہر سانس اس کو کبھی نہ چھوڑنا۔کائنات کے سبھی راز اسی میں ہیں: لعل وجواہر بھی اسی میں ہیں‘ چابی بھی اسی میں ہے‘ پھول کی پتیاں کی سونےکی بھی اسی میں ہے کائنات بھی اسی میں اور راز بھی اسی میں ہے۔ یہ لے! تجھے میں اس کی اجازت دیتا ہوں اور اس کی بھرپور تاثیر بھی دیتا ہوں جا! واپس لوٹ جا!بس! آئندہ سے کوئی سائل مت بھیجئے گا: حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ شیخ بس آئندہ کیلئے کوئی سائل نہ بھیجئے! ہمارا نظام متاثر ہوتا ہے‘ ہمارے ذمے کچھ ڈیوٹی اور خدمت ہے۔ اس ڈیوٹی اور خدمت میں خلل پڑتا ہے۔ بس چلا جا !انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا کندھے پر تھپکی دی اور فرمایا السلام علیکم! جب انہوں نے سلام کیا تو واپس میں نے محسوس کیا کہ میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے تہجد کے وقت بیٹھا۔ میں نے آنکھیں ملیں کہ میں نے تو وہاں کئی دن رات گزارے تھے لیکن یہ تو ابھی محسوس ایسے ہورہا تھا کہ تھوڑی دیر کیلئے حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں ان کے پیچھے توجہات لے رہا ہوں۔ بس جو دیکھا اس کو ہضم کرلینا:میری سانسوں کی تیزی نے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کومڑ کر دیکھنے پرمجبور کیا۔ فرمانے لگے بس جو دیکھا اس کو ہضم کرلینا‘ یہ وہ نظام ہے تمہاری جنات کی دنیا میں بھی نہ ہوگا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا میں نے ایک ذرہ بھی تمہیں نہیں دکھایا اگر تم دیکھ لیتے تو نامعلوم واپس نہ ہی آتے اور اس جہان کو بدبودار جہان کہتے کیونکہ روحوں کا جہان خوشبودار جہان ہے‘ میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پشت کے پیچھے روزانہ بیٹھنے لگا روز ایک نیا منظر دیکھتا تھا اور انوکھا نظام دیکھتا تھا۔صحابی بابا کی روحانی طاقت:جہاں بوڑھا عالم جن اپنی مستقل کیفیات بتائے جارہا تھا اور اپنےو اقعات سنائے جارہا تھا وہ بے خودی کے عالم میں تھا اسے احساس بھی نہیں ہورہا تھا کہ وقت کتنا گزر گیا اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمیں بھی احساس نہیں ہورہا تھا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ وقت گزرتا چلا جارہا تھا اور وہ اپنی دل کی کیفیات بیتے تجربات مشاہدات سورۂ قریش کے واقعات اور دیگر اعمال کے واقعات بتائے جارہا تھا۔ میں نے اسی دوران صحابی بابا کی آنکھوں میں دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ آنکھیں بند کیے نامعلوم کچھ سوچ رہے تھے‘ میں نے سوچا کہ شاید وہ سوگئے ہیں‘ ان کو جگانا مناسب نہ سمجھا تھوڑی ہی دیر میں مجھے فرمانے لگے کہ علامہ صاحب! آپ نے سمجھا تھا کہ شاید میں سوگیا میں نے مسکرا کر جواب دیا سمجھا تو یہی تھا۔ فرمانے لگے نہیں یہ بوڑھا عالم جو کچھ بیان کررہا ہے میں یہ سب کچھ سن رہا اور سننے کے پھر میں اپنی روحانی طاقت کے ذریعے اس بات کومحسوس کررہا کہ کیاجو کچھ انہوں نے بیان کیاسچ کیا یا جھوٹ کیا؟ تو میں اپنی روحانی طاقت کے ذریعے جہاں پہنچا ہوں وہاں کائنات میں بہت کم لوگ پہنچ سکتے ہیں میری روحانی طاقت کے ذریعے جہاں مجھے احساس ہے وہ بہت سے لوگ اس چیز کو حاصل نہیں کرسکتے۔ میری طاقت اور میری قوت کا اندازہ اس چیز سے لگالیں کہ میں ایک پل میں سات سمندر نیچے‘ سات دریاؤں کے نیچے اور سات زمینوں کے نیچے پہنچ جاتا ہوں۔ میں ہواؤں فضاؤں میں اپنی روحانی علوم کے ذریعے احساس و ادراک کرلیتا ہوں مجھے ایک احساس ہوتا ہے اور پھر وہ کائنات میں ہوجاتا ہے اور مجھے دل کی کیفیتوں کےساتھ اسے ماننا پڑجاتا ہے کہ میں جوکچھ بول رہا ہوں یا سوچ رہا ہوں وہ سچ ہے اور حقیقت ہے۔ اس سچ اور حقیقت کو بہت سے لوگ سمجھ نہیں پاتےاس لیے میں اظہار نہیں کرتا کیونکہ بعض حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں کہ حالانکہ انسان ان کو جھٹلا دے یا تو گنہگار ہوجاتا ہے یا کافر ہوجاتا ہے یا پھر گستاخ اور بے ادب ہوجاتا ہے۔آج آپ کو کچھ انوکھی حقیقتیں بتاؤں گا: لہٰذا میری کوشش ہے میں سنتا رہوں بولوں نہ۔ آج اگر میں بولا ہوں تو پھر میں آپ کو کچھ انوکھی حقیقتیں بتاؤں گا میں نے ان کی وجدانی کیفیت دیکھتے ہوئے سوال کیا لیکن سوال کرنے سے پہلے میں نے بوڑھے عالم جو سورۂ قریش کے کمالات و تجربات بتائے جارہے تھے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ تھوڑا سا موقع دیں تو صحابی بابا کی کیفیات واقعات حالات تجربات اور مشاہدات سن لیں۔حیرت انگیزروحانی تجربات اور حیرت انگیز روحانی مشاہدات: تو مجھ سے کہنے لگے ہاں کیوں نہیں؟ بلکہ میں خود یہ چاہتا ہوں کہ میں ان کی کیفیات سنوں لیکن بوڑھے عالم کہنے لگےمجھ سے ایک واقعہ سننا نہ بھولیے گا کیونکہ اس واقعے نے مجھے زندگی میں بہت کچھ دیا ہے کمالات‘ کیفیات‘ حیرت انگیز روحانی تجربات اور حیرت انگیز روحانی مشاہدات یہ سب کچھ مجھے اس کی وجہ سےملا ہے اور آپ بھی حیران ہوں گے اور یہ بات کہہ کر وہ خاموش ہوگئے ۔میں نے پھر صحابی بابا سے سوال کیا کہ حضور آپ یہ فرمائیے کیا سمندروں کی تہہ میں بھی جنات رہتے ہیں؟ کیا قبروں میں جنات رہتے ہیں‘ کیا دریاؤں کے نیچے جنات رہتےہیں‘ کیا زمین کےنیچے جنات رہتے ہیں‘ اگر آپ آج ازراہ کرم بولے ہیں تو پھر ہمیں کچھ حقائق واقعات مشاہدات ضرور بتائیے اور ایسے حقائق بتائیں جو چونکا دیں‘ میری وجدانی بات کو سن کر صحابی بابا بولے ہاں میں آج ضرور بتاؤں گا۔ فرمانے لگے:ہماری قوم جنات اور یہ قوم جنات بہت بہت بہت ہی زیادہ پرانی قوم ہے۔ انسانوں سے زیادہ اور انسانوں سے زیادہ تعداد میں بھی‘ کثرت میں بھی انسانوں سے زیادہ ہیں۔ انسان تو جنات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں بلکہ انسان تو بہت زیادہ تھوڑے ہیں۔ مجھے تیز نظروں سے صحابی بابا نے دیکھا اور فرمایا آپ کوپتہ ہے جس گھر میں آپ انسان لوگ کہتےہیں کہ جن جو ہیں اور آپ کے عامل کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے جن جلا دئیے‘ اتنے بھگا دئیے انہیں خبر ہی نہیں کہ جس گھر میں اگر جنات رہتے بھی ہیں تو وہ ایک نہیں دو نہیں سو نہیں ہزار نہیں بے شمار ہوتے ہیں اور پھر اپنی بات پر زور دیتے ہوئے مزید فرمانے لگے یہ حقیقت ہے کہ جن ہرجگہ رہتے ہیں ہر درخت‘ ہر گھر‘ ہر ویران‘ ہر اجاڑ اور ہر آبادی کی جگہ پر وہ سمندر ہوں‘ وہ دریا ہوں‘ وہ نہریں ہیں‘ وہ درخت ہوں‘ وہ باغ ہوں‘ وہ پارک ہوں‘ وہ قبرستان ہوں‘ وہ گھر ہوں‘ دنیا کی کوئی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں جنات نہ رہتے ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کی باتوں کو سارے حیرت اور استعجاب کی حالت میں سن رہے تھے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ وہ بوڑھے عالم جن آنکھوں سے آنسو بہائے حیرت انگیز طور پر یہ باتیں سن رہا تھا‘ نامعلوم وہ کیوںرو رہے تھے یہ میں نہ پوچھ سکا لیکن وہ رو رہے تھے اور اچھا خاصا رو رہے تھے۔ پھرمیں نے ان سے پوچھا میں نے کہا صحابی بابا! آپ اپنی کسی تجربے اور مشاہدے کی کیفیت بتائیں کہ آپ کو وہ تجربہ اور مشاہدہ ایسا ملا ہو جو آپ نے کبھی فراموش نہ کیا ہو‘تو ان کی بات کاٹتے ہوئے عالم جن نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں کوئی مشاہدہ بتادوں۔ صحابی بابا نے محبت اور نرمی سے فرمایا ہاں آپ بتادیجئے تو فرمانے لگے کہ میں ایک دفعہ ایک جنگل میں جارہاتھا جنگل کیا تھا؟ بہت بڑا گھنا جنگل ہزاروں میلوں پھیلا ہوا جس میں درندے اور خطرناک جانور رہتے تھے۔ انسان کہیں بھی نہیں تھے بس جنات ہی جنات اور درندے ہی درندے رہتے تھے۔ وہاں میں نے ایک جگہ تھوڑی دیر قیام کیا، وہ اس لیے کہ نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ میں نے اذان دی‘ قریب قریب مسلمان جنات تھے‘ میری اذان سن کر وہ بھی آگئے جماعت کرائی‘ نماز پڑھی اور نماز پڑھنے کے بعد میں بیٹھا کچھ تسبیحات کررہا تھا جو میرے پیرو مرشد نے مجھے بتایا تھا۔ میرے پیرومرشد مکہ مکرمہ کے رہنے والے اور وہ بھی صدیوں بڑی عمر رکھتے ہیں‘ اسی دوران مجھے محسوس ہوا کہ جنگل میں آندھی کی کیفیات شروع ہوگئیں۔ درختوں پر ہلچل مچ گئی جانور ادھر ادھر دوڑنے لگ گئے‘ آسمان پر کالی گھٹا بن گئی اور جگہ جگہ ہوا کے بگولے اٹھنے لگے اور ہوا کے بگولے اٹھنے لگے‘اٹھتے اٹھتے اس دوران پورے جنگل کوآندھی نےاپنی لپیٹ میں لے لیا اور اتنی آندھی چلی طوفان درخت اپنی جگہوں سے اکھڑ اکھڑ کر نیچے گرنے لگے‘ شاخیں ٹوٹنے لگیں‘ درندوں کی‘ پرندوں کی اور چیزوں کی وہاں رہنے والے جانوروں کی چیخ و پکار مچ گئی۔میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا کیونکہ مجھے علم ہے کہ میں جن ہوں اور آندھی جب چلتی ہے تو اس کے اندر طاقت اور قوت جنات کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔جب آندھی چلتی ہے تو جنات خوش ہوتے ہیں: جنات کو آندھی بہت پسند ہے اور وہ چونکہ خود آندھی طوفان کی طرح اڑتے اور چلتے ہیں اس لیے انہیں آندھی پسند ہے جب بھی آندھی چلتی ہے جنات خوش ہوتےہیں‘ ہواؤں میں اڑتے ہیں‘ تیرتے ہیں‘ پھیلتےہیں اور ہوا کے مخالف رخ پر چلتے ہیں‘ اسی دوران آندھی آئی تو میں نے ایک منظر دیکھا منظر کیا دیکھا ایک درخت اکھڑا ہوا بہت پرانا اور بہت ہی بڑا۔درخت کی جڑ کے نیچے غار: اس کے اکھڑنے سے وہاں ایک غار سی بن گئی تھی‘ میں حیران ہوا درخت کی جڑ کے نیچے غار کا کیا تعلق؟ میں نے اس غار کو غور سے دیکھنا شروع کیا‘ دیکھتے دیکھتے مجھے محسوس ہوا کہ اس غار کے نیچے جانے کا راستہ ہے‘ اس بات کامجھے تو احساس ہے اور بلکہ یقین ہے کیونکہ ہم لوگ اپنی قوموں اور مزاجوں کو جنات کی طبیعت اور رسم و رواج اور رہنے سہنے کو سمجھتے ہیں لیکن مجھے اس کا احساس تھا بھی نہیں‘ یہ خود میں نے پہلی دفعہ دیکھا۔ یہ بات کہتے ہوئے وہ بوڑھا جن کچھ لمحوں کیلئے رک گیا‘ اپنی سانس کو بحال کرنے لگا کیونکہ وہ یہ تمام باتیں بہت جذباتی کیفیات کے ساتھ بتا رہا تھا اور اپنی سانس کو بحال کرتے ہوئے جن کہنے لگے میں اس غار کے اندر اتر گیا اور غار کے اندر اترتے اترتے جب میں غار کے نیچے پہنچا تو مجھے محسوس ہوا وہاں جنات آباد ہیں، ان کی نسلیں ‘ان کے گھر‘ ان کا کھانا‘ ان کا پینا‘ان کی زندگی‘ ان کی بودوباش‘ مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں جانتا تھا کہ زمین کے نیچے جنات آباد ہیں اور ہوتےہیں ۔زمین کے نیچے زمین میں جنات: لیکن اس سے اگلی حیرت مجھے اور ہوئی کہ میں نے دیکھا کہ ایک گلی ہے نامعلوم میں کیوں بغیر سوچے سمجھے اس گلی کے اندر چل نکلا۔ اور اس گلی سے چلتے چلتے میں ایک اور دنیا میں پہنچا اور مجھے محسوس ہوا کہ زمین کے نیچے بھی کوئی زمین ہے اور اس کے اندر گیا، تو وہاں عجیب و الخلقت جنات تھے جو میں نے آج تک پہلے نہیں دیکھے تھے‘ تھے تو وہ بھی جنات لیکن ہم سے زیادہ خطرناک ان کی آواز پیار محبت کی بھی چنگھاڑ سے کم نہ تھی ان کا کھانا پینا ہم سے جدا تھا ان کی زندگی ان کا اٹھنا بیٹھنا ہم سے بالکل مختلف تھا ۔میں حیرت انگیز زندگی دیکھ کر پریشان ہوا تو مجھے اپنے آپ کو خطرہ محسوس ہوا کہ شاید یہ لوگ مجھے ہی نہ کھاجائیں پھر احساس ہوا وہ بھی تو جن ہیں ہم بھی جن ہیں پھرمجھے نامعلوم خطرہ کا احساس ہوا لیکن وہ قوت تھیجومجھے آگے چلائے جارہی تھی اور ایک طاقت تھی مجھےآگے لیے چل رہی تھی۔بوڑھا عجیب الخلقت جن اور سورۂ والشمس: میں اس قوت اور طاقت اوراس کیفیت کے ساتھ آگے چلتے چلتے ایک جگہ پہنچا تو ایک منظر دیکھا ایک بہت پرانا بوڑھا جن ہے اور وہ بیٹھا قرآن پاک پڑھ رہا ہے اور قرآن پاک میں سےصرف سورۂ والشمس پڑھ رہا۔ صرف وہی پڑھے جارہا۔ سورۂ ختم ہوتی پھر شروع کردیتا پھر ختم ہوتی پھر شروع کردیتا۔پھر ختم ہوتی پھر شروع کردیتا۔ میںنامعلوم کیوں بیٹھ گیا۔ آپ مجھے محسوس کررہے ہیں کہ میں نامعلوم بار بار استعمال کررہا ہوں اب مجھے محسوس ہوتا ہے جو قوت اور طاقت تھی جو مجھے چلائے اور لیے پھررہی تھی ا ور وہ قوت اورطاقت ہی میرے دائیں بائیں ساتھ لیے پھر رہی تھی۔ میں کہیں بیٹھ جاتا کہیں کھڑا ہوجاتا کہیں چل پڑتا بس مجھے خبر نہیں تھی یہ سب کیوں ہورہا؟ لیکن ہورہا تھا اور ایسے انداز سے ہورہا تھا کہ خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا اور ایسی کیفیت کے ساتھ ہورہا تھا کہ خود مجھے بھی گمان نہیں تھا اور اس انداز سے ہورہا تھا۔ میں اس قرآن پڑھنے والے بوڑھے عجیب الخلقت جن کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا اور میں اس کو غور سے دیکھتا رہا‘ دیکھتا رہا کہ وہ بار بار سورۂ والشمس پڑھے جارہا‘ پڑھے جارہا۔ یہ عمل کوئی گھنٹوں بیت گیا ‘مجھے نہ تھکن محسوس ہوئی‘ نہ اکتاہٹ محسوس ہوئی‘ میں مسلسل سنتا جارہا تھا وہ ہلکی آواز میں پڑھ رہے تھے‘ وہ ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ باقی عجیب الخلقت جنات آجارہے تھے‘ کوئی ان کے اس عمل پر توجہ دھیان اور دلچسپی نہیں لے رہا تھا‘ بس میں بیٹھا اس دوسری زمین کے نیچے یہ سارا عمل سن رہا تھا اور دیکھ رہا تھا۔عجیب الخلقت جن نے میرے لیے بانہیں پھیلادیں: گھنٹوں کے عمل کے بعد وہ سجدے میں چلے گئے اور پھر بہت دیر سجدے میں پڑے رہے‘ اس کےبعد انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان کا سر پسینہ پسینہ ہوگیا۔ میرے لیے کھڑے ہوگئے بانہیںپھیلا دیں‘ بہت پیار محبت سے مجھے ملے‘ ان کے انگ انگ سے خوشبو‘ روئیں روئیں سے روحانیت ٹپک رہی تھی اور ان کے معانقہ اورملنے سے مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں کسی جنتی سے مل رہا ہوں اور جنت کی ہوائیں فضائیں اور جنت کا نور مجھے اپنے اردگرد محسوس ہونے لگا یہ سب منظر دیکھ رہا تھا اور اس سب منظر کو محسوس کررہا تھا۔دوسری زمین کے جنات نے میری دعوت کی: انہوں نے مجھے اپنے سے جدا کیا ‘پیار سے بٹھایا‘ ایک تالی بجائی ‘تھوڑی ہی دیر میں دو جوان فرمانے لگے ملو ان سے یہ بھی ہمارے جن بھائی ہیں لیکن یہ زمینی دنیا میں رہتےہیں اور زمین کے اوپر رہتے ہیں ہم زمین کے نیچے دوسری زمین میں رہتےہیں اور پھر مجھے دیکھ کر فرمانے لگے یہ مجھے دیکھ کر حیران ہورہے تھے کیونکہ انہوں نے ہمیں زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا ہے اور میرا یہ عمل بھی شاید انہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ محسوس کیا‘ میں نے ان کی اس بات پر گردن ہلائی اور بیٹوں نے جو مجھے دیکھ رہے تھے مسکرا دئیے۔ تھوڑی ہی دیر ہوئی مشروب کھانے کی چیزیں‘ بہت اچھی اچھی ڈشیں میرے سامنے آگئیں۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میں نے واقعی کھانانہیں کھایا تھا اور کھانا مجھے اچھا لگنے لگا اور میں کھانے لگا‘ کھاتے کھاتے مجھے ایک احساس ہوا کہ میں بہت زیادہ کھارہا ہوں اور میں نے واقعی بہت زیادہ کھالیا تھا۔ بس کوئی طاقت یہاں کھینچ لائی:جب میں نے وہ کھانا کھالیا تومجھے فرمانے لگے کیسے آئے؟ میں نے سنجیدگی سے جواب دیا خبر تو خود مجھے بھی نہیں کیسے آیا۔ بس کوئی طاقت مجھے یہاں کھینچ لائی اور شاید اس طاقت نے میری آپ سے ملاقات کرادی۔ میری اس بات پر خوش ہوئے فرمانے لگے ہمارے دل میں ایک سوال ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ میں سورۂ شمس کیوں بار بار پڑھ رہا تھا۔ یہ بات کہتے ہوئےبوڑھےعالم جن نے سب کی طرف بہت حیرت زدہ نظروں سے دیکھا میں صحابی بابا اوردوسرے تمام جنات بوڑھے عالم جن کی یہ ساری باتیں سن رہا تھا اور وہ وجدان بے خودی کی کیفیت میں بولے جارہا تھا۔ ان کی بات کاٹتے ہوئے صحابی بابا نے فرمایا یہ جو کچھ بیان کررہے ہیں یہ سچ بیان کررہے ہیں میرا روحانی علم اس کی تصدیق کررہا ہے۔ انہوں سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے بوڑھے عالم جن کے کندھے پر تھپکی دی‘ ہاں ہاں بہت اچھی بات آپ بولیے ہم سن رہے ہیں اور مختصر نہ سنائیے گا وہ تفصیلات آپ سنائیں سوفیصد آپ کی باتیں سننے کیلئے تیار ہیں۔چالیس دن میں سواکروڑ سورۂ والشمس پڑھی: وہ بوڑھا عالم جن بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے وہ عجیب الخلقت جن جو سورۂ شمس پڑھ رہے تھے فرمانے لگے میں دراصل چالیس دن سے اسی نشست پر بیٹھا ہوں‘ نہ کھایا ہے‘ نہ پیا ہے‘ نہ سویا ہوں اور چالیس دن سے میں صرف سورۂ شمس پڑھ رہا ہوں۔ میں نے اب تک سورۂ شمس چالیس دن میں سواکروڑ پڑھی ہے اور ہمارے لیے اتنا پڑھنا کوئی مسئلہ نہیں تمام جنات نے سر ہلایا اور اس کی تصدیق کی‘ واقعی جنات کو اللہ تعالیٰ نےطاقت و قوت بہت دی ہے اور ان کیلئے پڑھنا مسئلہ نہیں ہے۔ ساڑھے گیارہ سو سال عمر کے جن کا انسانوں کیلئے لاجواب تحفہ:کہنے لگے میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ میرے اس عمل کی طاقت و تاثیر کسی ایسے شخص کو ملے جو تیری دکھی مخلوق تک یہ عمل پہنچائے اور دکھی مخلوق کو فائدہ پہنچے لہٰذا دکھی مخلوق اور دکھی انسانیت کیلئے میں نے یہ عمل کیا تھا پھر اس عمل کے فائدے بتائے اور فائدے بتانے سے پہلے فرمانے لگے میں دراصل اپنی زندگی کے آخر تک پہنچ گیا ہوں میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سو سال بلکہ اس سے کچھ سال زیادہ ہے اور میں نے ساری زندگی جنات کو دیکھا کہ وہ انسانوں کودکھ دیتے ہیں‘ کسی کی اولاد بند کرنے کی شرارت کرتے ہیں‘ کسی کے بچے کو بہکانے کی شرارت کرتے ہیں‘ کسی میاں بیوی میں جھگڑا کرادیتے ہیں‘ کبھی کسی بچے کو کند ذہن بنادیتے ہیں‘ کبھی حادثہ کراتے ہیں‘ کبھی نقصان کرواتے ہیں‘ کبھی آگ لگواتے ہیں‘ کبھی بیماری میں ذریعہ بن جاتے ہیں‘ میں نے جنات کو ساری زندگی لوگوں کو دکھ دیتے دیکھا ہے اور میں طے کرچکا تھا کہ میں مرنے سے پہلے سورہ والشمس کے سواکروڑ کا چلہ کروں گا نہ کچھ کھاؤں گا‘ نہ پیو گا‘ نہ سوؤں گا‘ نہ بولوں گا۔ اس کاچلہ کرکے انسانوں کو اس کا عطیہ دے جاؤں گا اور میری طرف سے وہ اجازت ہوگی۔ہرمراد پوری کرنےکا وظیفہ خاص: جو شخص یہی سورۂ والشمس صرف چالیس بار پڑھے ہر دفعہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اول و آخر سات بار درود ابراہیمی یا وہ خود نہیں پڑھ سکتا تو اس کی طرف سےکوئی اور پڑھے لے‘ چالیس دن‘ ستر دن‘ یا نوے دن اور اگر مراد حاصل نہ ہو تا حصول مراد جب تک مرا د حاصل نہ ہو یہ پڑھے تو اس کے سامنے انوکھا معاملہ ہوگا۔ وہ یہ ہوگا کہ سب سے پہلے اس کے ساتھ زندگی کی ایک ایسی ترتیب چلے گی کہ وہ مالامال ہوجائے گا‘ بے اولاد پڑھے گا تو اس کے ہاں اولاد ہوجائے گی‘ بے روزگار پڑھے اس کا رزق کھل جائے گا‘ بے آسرا پڑھے گا اسے آسرا مل جائے گا‘ بے وسیلہ پڑھے گا اسے وسیلہ مل جائے گا جس کو شفا نہیں اس کو شفا مل جائے گی جس کو تکلیف ہے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی جس کی اولاد میں گندگی ہے اس میں صفائی آجائے گی جس کے بچے ہوتے ہیں مرجاتے ہیں‘ اگر وہ پڑھیں گے تو اس کے بچے صحت یاب پیدا ہوں گے جس کے بچے ٹیڑھے الٹے یا عجیب الخلقت یا مریض پیدا ہوتے ہیں یا نامکمل پیدا ہوتے ہیں وہ صحت یاب ہوجائیں گے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 954 reviews.